گدھے کی ضد حقیقت ہے یا انسانی غلط فہمی
ہم اکثر سوچتے ہیں کہ گدھا ضد کیوں کرتا ہے؟کبھی نہ کبھی “گدھے کی ضد” کا محاورہ بھی سنا ہو گا، اور اکثر خود کو یا کسی دوسرے کو اسی لقب سے نوازا بھی ہوگا۔
شاید آپ کے ذہن میں کوئی ایک ایسا گدھا آتا ہو، جو بیچ راستے میں کھڑا ہو گیا ہو، اور اسے ہٹانے کے لیے چاہے آپ لٹھ لے کر آ جائیں یا پیار سے لڈو پیش کریں، وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ ہم اسے فوراً “ضدی”، “ہٹ دھرم” یا سب سے بڑھ کر “بے وقوف” کا تمغہ پہنا دیتے ہیں۔ مگر کیا کبھی سوچا ہے کہ جس جانور کو ہم اتنی آسانی سے جج کر رہے ہیں، کہیں وہ ہم سے زیادہ سیانا تو نہیں؟
جی ہاں! یہی وہ سوال ہے ۔ جب ہم انسان کسی کے رویے کو نہیں سمجھتے تو فوراً اسے اپنے محدود نظریے سے دیکھتے ہیں اور لیبل لگا دیتے ہیں۔ گدھے کی یہ “ضد” بھی کچھ ایسی ہی کہانی ہے۔ آئیے ذرا اس بیچارے گدھے کی نفسیات کو سائنسی انداز میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
گھوڑے کا رشتہ دار، یعنی گدھا
گھوڑا وفاداری اور پھرتی کا بادشاہ ہے، وہ سرپٹ دوڑتا ہے۔گھوڑے کی فطرت میں ‘فرار’ ہے، یعنی خطرہ دیکھا اور بھاگا۔ وہ اپنی جان بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے، چاہے اس میں کتنا ہی خطرہ مول کیوں نہ لینا پڑے۔ ان کی بقا کا دارومدار ہی تیز رفتاری پر ہے۔ لیکن گدھا؟ جس کا تعلق گھوڑے کے خاندان سے ہے، جسے ہم اس کے بھائی گھوڑے سے ذرہ کم سمجھتے ہیں اس کے برعکس ہے۔ یہ فرق ہمیں حیران کرتا ہے۔
اب اپنے اصل عنوان کی طرف آتے ہیں کہ گدھا ضد کیوں کرتا ہے
1 گدھے کی جبلت میں ‘رک کر معائنہ کرنا’ شامل ہے۔ وہ گھوڑے کی طرح “پہلے بھاگو، پھر سوچو” کی بجائے “پہلے سوچو، پھر دیکھو، پھر فیصلہ کرو” پر یقین رکھتا ہے۔ یہ اس کی بقا کا وہ راز ہے جسے ہم “ضد” کا نام دے دیتے ہیں۔ کسی چیز میں خطرہ محسوس کرے تو وہ فوراً رک جاتا ہے اور آگے بڑھنے سے انکار کر دیتا ہے
2 لیکن وہ یہ ردعمل فوراً ظاہر نہیں کرتا بلکہ صورتحال کاجائزہ لیتا ہے جو بعض اوقات لوگوں کو ضد لگتا ہے اور بعد میں پھر وہ چل بھی پڑتا ہے ایسی صورتحال میں جب وہ چلتا ہے تو ادھر ادھر کے ماحول پر بھی گہری نظر رکھتا ہے اس وقت اگر گدھے پر غور کریں تو وہ ہوشیار نظروں سے ادھر ادھر دیکھتا ہوا نظر آئے گا کیونکہ وہ انتہائی محتاط ہو کے چلتا ہے اور ذرا برابر بھی خطرہ محسوس کرے تو فوراً ہائی الرٹ ہو جاتا ہے۔
3 یا اگر کبھی زمین پھسلن والی ہو، راستہ خطرناک ہو یا اس پر بوجھ زیادہ ہو تو وہ رک کر مزاحمت کرتا ہے اور کہتا ہے میرے اُوپر بوجھ زیادہ ہے یہ جگہ خطرے سے خالی نہیں میں پھسلوں گا لہذا میں نہیں جاتا آگے۔ اسے ہم ضد تصور کرتے ہیں جبکہ وہ خطرہ مول لینا نہیں چاہتا۔
مار پیٹ کا دباؤ اور غلط استعمال یا تربیت
گدھے کی ضد بعض اوقات انسانوں کے غیر مناسب رویے کی وجہ سے بھی پیدا ہوتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ گدھا وہ واحد جانور ہے جو مار پیٹ کو مانتا ہی نہیں۔ یہ ایک اہم نفسیاتی پہلو ہے جسے ہم اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اگر آپ اسے ماریں گے تو وہ مزید ضدی ہو جائے گا! اس کے نزدیک مار پیٹ ایک اور خطرے کی علامت بن جاتی ہے، اور اس کا دماغ اسے مزید رکنے کا سگنل دیتا ہے۔ اس کا ردِعمل یہ ہوتا ہے جیسے وہ کہہ رہا ہو، “اب تو میری چمڑی بھی ادھیڑ دو، میں تو نہیں آگے بڑھنے کا!” یہ گدھے کی زبان میں اس کا احتجاج ہوتا ہے۔ اسے جہاں سے خطرہ محسوس ہو، وہ اپنے اصولوں پر ڈٹا رہتا ہے اور کسی بھی دباؤ میں نہیں آتا۔ لیکن اکثر لوگ یہاں گدھے کا تقابل گھوڑے یا خچر سے کرتے ہیں، جو عام طور پر حکم ماننے میں جلدی کرتے ہیں۔ گھوڑا جھٹ سے دوڑ پڑتا ہے، چاہے وہ خطرناک کیوں نہ ہو۔ بھائی اس کی جبلّت میں “فرار” ہے۔اسی طرح خچر جو گدھے اور گھوڑی کی نسل سے ہوتا ہے، اس کا رویہ بھی درمیانی نوعیت کا ہوتا ہے۔ لیکن گدھا؟
جناب گدھا! وہ اس سے بھی اوپر کا لیول ہے؛ وہ سوچتا ہے، تجزیہ کرتا ہے، اور پھر فیصلہ کرتا ہے۔ اس کی یہ صلاحیت اسے نہ صرف خود کو بچانے میں مدد دیتی ہے، بلکہ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ اس میں انٹیلی جنس اور فیصلہ سازی کی صلاحیت موجود ہے۔ لہٰذا ان پہ قیاس کر کے گدھے کو نہیں مارنا چاہیے۔

ضد یا دانشمندی؟
ایسی باتوں کو مدِنظر رکھتے ہوۓ بعض ماہرین حیوانات کے مطابق گدھے کی ضد کو دانشمندی بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ گدھا اکثر ان راستوں سے جانے سے انکار کرتا ہے جو خطرناک ہوتے ہیں۔ وہ اپنی جسمانی حدوں سے آگے جانے پر مزاحمت کرتا ہے، جو کہ خود حفاظتی فطرت کی علامت ہے۔ اگر اسے محبت اور آرام سے بلایا جائے، تو وہ اکثر تعاون کرتا ہے۔
بدقسمتی سے گدھے کی ضد کو ایک منفی علامت بنا دیا گیا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں “ضدی گدھا” کہنا ایک توہین سمجھی جاتی ہے۔ دراصل، گدھے کی فطرت کو سمجھے بغیر ہم نے اس پر ایک بدنامی کا لیبل لگا دیا ہے۔
خلاصہِ کلام گدھے کی ضد دراصل ایک حفاظتی ردِعمل، محتاط فطرت اور بعض اوقات انسانی زیادتیوں کا نتیجہ ہے۔ اسے ضد کہنا ایک سطحی اور غیر سائنسی رائے ہے۔ اگر ہم جانوروں کو سمجھیں، ان سے ہمدردی کریں، اور ان کی فطری جبلتوں کا احترام کریں، تو ہمیں ان کے رویوں میں حکمت اور معقولیت نظر آئے گی، نہ کہ ضد۔
یہ بات صرف گدھے پر نہیں، بلکہ انسانی رویوں کو سمجھنے پر بھی لاگو ہوتی ہے، اگر ہم دوسروں کے رویوں کو ان کے نقطہ نظر سے سمجھنے کی کوشش کریں تو شاید بہت سی “ضد” دراصل “سمجھداری” میں بدل جائے۔