ڈرونز کا بڑھتا چیلنج اور جدید جنگ کا نیا میدان
آج کل کی دنیا میں جنگیں لڑنے کا انداز بہت تیزی سے بدل گیا ہے ۔ پہلے فوجیں آمنے سامنے لڑتی تھیں، ٹینک اور لڑاکا طیارے اہم ہتھیار سمجھے جاتے تھے، لیکن اب ایک نئی چیز میدان میں آ چکی ہے جس نے سب کو پریشان کر رکھا ہے، اور وہ ہیں “ڈرون” ۔ یہ چھوٹے، بغیر پائلٹ کے اڑنے والے جہاز ہوتے ہیں جو بہت سے کام کر سکتے ہیں، جیسے کہ دشمن کی جاسوسی کرنا، ان پر حملے کرنا، اور یہاں تک کہ اہم معلومات اکٹھی کرنا ۔ آپ یوکرین میں جاری جنگ کو دیکھ لیں ، یا مئی میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان ڈرون حملوں کے الزامات کو ، یا پھر ایران اور اسرائیل کے بیچ چلنے والے حالیہ تنازع کو – ہر جگہ ڈرونز نے فوجی منصوبہ سازوں کے لیے نئی مشکلات کھڑی کر دی ہیں ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ چھوٹے سے ڈرون اتنے خطرناک کیوں ہیں؟ اس کی کئی بڑی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ چھوٹے ڈرون ریڈار پر آسانی سے نظر نہیں آتے ۔ ریڈار ایک ایسا آلہ ہوتا ہے جو جہازوں اور دیگر چیزوں کا پتہ لگاتا ہے، لیکن یہ ڈرون زیادہ اونچائی پر پرواز نہیں کرتے اور اس میں ریڈار کو جام کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ریڈار انہیں پکڑ نہیں پاتا ۔ یہاں تک کہ امریکہ اور اسرائیل جیسے بڑے اور ترقی یافتہ ممالک کو بھی ایسے چھوٹے ڈرونز کو اپنی حدود میں داخل ہونے سے روکنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ ڈرون بہت سستے ہوتے ہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی بھی ملک یا گروہ بہت زیادہ پیسہ خرچ کیے بغیر انہیں بڑی تعداد میں خرید کر حملوں کے لیے استعمال کر سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ یوکرین کی جنگ میں اتنے مؤثر ثابت ہوئے ہیں کہ انہیں اگلے محاذوں پر ایک “کرشماتی ہتھیار” سمجھا جانے لگا ہے ۔ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ ان کا کوئی توڑ نہیں ہے ۔
ڈرونز کا مؤثر دفاع ،لیزر اور صوتی نظام کی انقلابی پیشرفت
لیکن اب نئی تحقیق یہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک نے ان خطرناک ڈرونز کا توڑ نکالنا شروع کر دیا ہے ۔ فرانس کی ایک بڑی دفاعی کمپنی رفال نے ایک نیا ہتھیار بنایا ہے جسے “لیزر سسٹم” کہتے ہیں ۔ یہ سسٹم ڈرونز کو بہت کم خرچ میں مار گرا سکتا ہے ۔ لیزر سسٹم کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ ایک ساتھ 10 اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے ۔ یہ بہت اہم ہے کیونکہ اگر دشمن بہت سارے ڈرونز بھیجے تو یہ سسٹم ان سب کو بیک وقت سنبھال سکتا ہے۔ پیرس میں ہونے والے لی بورجے ایئر شو کے دوران اسرائیل، جرمنی اور دیگر ممالک نے بھی اپنے اینٹی ڈرون نظام متعارف کروائے ہیں جو ان کے بقول اس سستے اور موثر ہتھیار کا توڑ بن سکتے ہیں ۔ لیزر ہتھیار وہ ہوتے ہیں جو روشنی کی تیز شعاعوں سے اہداف کو نشانہ بناتے ہیں، اور یہ ڈرونز کو تباہ کرنے کا ایک سستا طریقہ ہے کیونکہ اس میں گولہ بارود استعمال نہیں ہوتا۔ برطانیہ نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ فضائی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے لیزر ہتھیار تیار کر رہا ہے اور ان کا ارادہ ہے کہ وہ 2027 میں ان کا استعمال شروع کر دے گا۔ اس کے علاوہ، یوکرین نے بھی “ٹرائیڈنٹ” نامی اپنا لیزر سسٹم تیار کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ دنیا بھر میں لیزر ہتھیاروں کو ڈرونز کے خلاف ایک اہم حل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
صرف لیزر ہی نہیں، جرمنی کی ہتھیار بنانے والی کمپنی “ڈیل” نے ایک بہت ہی دلچسپ اور مختلف قسم کا اینٹی ڈرون ہتھیار پیش کیا ہے ۔ یہ “گارڈین سسٹم” کہلاتا ہے جسے مختلف ڈرونز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے ۔ یہ نظام ڈرونز کا پتہ لگانے کے لیے مختلف قسم کے سینسر استعمال کرتا ہے، جن میں “صوتی سینسر” یعنی آواز کو پہچاننے والے سینسر بھی شامل ہیں ۔ شروع میں اس سسٹم کو اس لیے بنایا گیا تھا تاکہ ڈرونز کو مقامی ابادی, شہری علاقوں جیسے ایئرپورٹ کی حدود میں داخل ہونے سے روکا جا سکے ۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ نظام ڈرونز کو “غیر مہلک” طریقوں سے بھی روک سکتا ہے ۔ غیر مہلک کا مطلب ہے کہ وہ ڈرون کو تباہ کیے بغیر اس کو روک دے گا، مثلاً یہ الیکٹرانک وارفیئر (ڈرون کے کنٹرول سسٹم کو جام کرنا) استعمال کر سکتا ہے یا جال پھینک کر ڈرون کو پکڑ سکتا ہے ۔ اب ڈیل کمپنی فرانس کی رفال کمپنی کے ساتھ مل کر اس گارڈین سسٹم کو پیش کر رہی ہے ۔ اس کے ساتھ “سیکاڈا مائیکرو ڈرون انٹرسیپٹر” نامی ایک چھوٹا ڈرون بھی پیش کیا گیا ہے ۔
جنگی حکمت عملی میں نیا موڑ معاون ڈرونز کا تصور
ڈرون ٹیکنالوجی میں ایک بہت بڑی اور دلچسپ تبدیلی “سپورٹ ڈرون” کے تصور کی صورت میں آ رہی ہے ۔ یہ ایسے بغیر پائلٹ کے جہاز ہوتے ہیں جو لڑاکا طیاروں کے ساتھ مل کر لڑائی میں حصہ لیتے ہیں ۔ یہ اسٹیلتھ ٹیکنالوجی سے بنائے جاتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ انہیں ریڈار پر دیکھنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ یہ سپورٹ ڈرون روایتی لڑاکا طیارے کا بہت سا کام خود سنبھال سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، یہ لڑاکا طیارے پر موجود ریڈار کا استعمال کرتے ہوئے جنگی صورتحال پر گہری نظر رکھتے ہیں، معلومات کا تجزیہ کرتے ہیں، زمینی حملوں کے لیے اضافی ہتھیار بھی لے جا سکتے ہیں، الیکٹرانک وارفیئر کے ذریعے دشمن کے سسٹم کو جام کر سکتے ہیں، یا پھر پائلٹ کی حفاظت کو یقینی بنانے میں مدد کرتے ہیں ۔ دنیا کی کئی بڑی فضائی کمپنیاں ایسے ڈرونز پر کام کر رہی ہیں۔ 2024 میں برطانیہ میں ہونے والے فرنبرو ایئر شو کے دوران ایئربس اور ڈیہل نے ایسے ہی ڈرونز پیش کیے تھے ۔ امریکہ بھی ایک ایسا ڈرون بنا رہا ہے جو اس کے “کولیبوریٹیو کامبیٹ ایئر کرافٹ” پروگرام کا حصہ ہے ۔ لی بورجے ایئر شو کے دوران اینڈیورل اور جنرل ایٹومکس ایروناٹیکل سسٹمز نے بھی ایسے ہی دو سسٹم متعارف کروائے ہیں ۔ ان کی خصوصیات کے بارے میں ابھی زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں، لیکن لگتا ہے کہ ان دونوں کے نظام کافی لچکدار ہیں جنھیں مشن کے حساب سے ترتیب دیا جا سکے گا ۔ جنوبی کوریا کی کمپنی کوریا ایرو اسپیس انڈسٹریز نے بھی ایئر شو کے دوران ایک “ایسکورٹ ڈرون” پروجیکٹ پیش کیا ۔ یہ کمپنی سپورٹ ڈرونز کے ساتھ ایسے چھوٹے طیارے بھی تیار کر رہی ہے جو اس ڈرون اور لیڈ لڑاکا طیارے دونوں کی مدد کریں گے ۔ لڑاکا طیارے کا ساتھ دینے کے لیے بنائے جانے والے ان ڈرونز اور چھوٹے طیاروں کی تشکیل مشن کے لحاظ سے مختلف ہوگی ۔ یہ تمام نظام مستقبل میں ہونے والی فضائی جنگ کی عمومی سمت کی عکاسی کرتے ہیں ، اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس نظام کا بتدریج ارتقا مستقبل میں لڑاکا طیاروں میں پائلٹوں کی ضرورت کو مکمل طور پر ختم کر دے گا ۔
بحری جنگ میں ڈرونز کا کردار: نئے پلیٹ فارمز اور ٹیکنالوجیز
صرف زمینی اور فضائی جنگ ہی نہیں، بلکہ بحری جنگوں میں بھی ڈرونز کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ “ایل بی اے سسٹمز” نامی ایک مینوفیکچرر نے بھی 2025 کے لی بورجے ایئر شو میں اپنی مصنوعات پیش کیں ۔ یہ ترکی کی مشہور کمپنی بائیکار اور اطالوی کمپنی لیونارڈو کے درمیان ایک مشترکہ منصوبہ ہے ۔ لیونارڈو یورپ کے سب سے بڑے طیارہ ساز اداروں میں سے ایک ہے، جبکہ بائیکار اپنے “بیراکتر” ڈرونز کے لیے مشہور ہے ۔ یہ کسی نئی یورپی کمپنی کے لیے پہلا بڑا ایئر شو ہے جو ڈرون مارکیٹ میں نمایاں کھلاڑی بننے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ انہوں نے ایئر شو میں فولڈنگ ونگز والے “بیراکتر ٹی بی 3 ڈرون” کی رونمائی کی ۔ اس ڈرون کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس کے پر (وِنگز) مڑ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے اسے چھوٹے جہازوں پر لے جانا اور رکھنا آسان ہو جاتا ہے ۔ اسے خاص طور پر ترکی کے یونیورسل لینڈنگ جہاز “انادولو” پر استعمال کیے جانے کے لحاظ سے ڈیزائن کیا گیا ہے ۔ 2024 میں اس ڈرون کی جہاز کے عرشے (ڈیک) سے آزمائشی پروازیں بھی ہو چکی ہیں ۔ نئے برانڈ کے تحت متعارف کرایا جانے والا دوسرا ڈرون اس سے قبل “اکینچی بمبار ڈرون” کے نام سے جانا جاتا تھا ۔
ڈرونز کا بدلتا عالمی منظر اور دفاعی تیاری
خلاصہ یہ کہ ڈرونز نے جنگ کا میدان مکمل طور پر بدل دیا ہے۔ جہاں ایک طرف یہ جنگوں کو نئے طریقوں سے آسان بنا رہے ہیں، وہیں دوسری طرف ان کے خلاف دفاع ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ لیکن دنیا کے سائنسدان اور انجینئر ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے ہیں۔ لیزر سسٹم، آواز سے پتہ لگانے والے نظام، اور لڑاکا طیاروں کے ساتھ کام کرنے والے “سپورٹ ڈرونز” جیسی نئی ٹیکنالوجیز اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیزی سے تیار کی جا رہی ہیں۔ یہ تمام پیش رفتیں دکھاتی ہیں کہ مستقبل کی جنگیں بہت مختلف ہوں گی، اور ٹیکنالوجی اس میں سب سے اہم کردار ادا کرے گی۔