پاکستانی معیشت کا ایک بڑا سوال یہ ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کیوں گھٹتا یا بڑھتا ہے؟ اور اس کے عوام، حکومت اور ملک پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
یہ محض ایک عددی تبدیلی نہیں، بلکہ اس کے پیچھے کئی اہم اقتصادی، سیاسی اور عالمی وجوہات کارفرما ہوتی ہیں۔ اس کے بڑھانے یا گھٹانے میں بعض اوقات حکومتِ وقت کا بھی ہاتھ ہوتا ہے ۔ یہ کام حکومت، مرکزی بینک (State Bank of Pakistan)، اور مالیاتی پالیسی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اسے “کرنسی کی قدر میں مداخلت” (Currency Intervention) یا “ایکسچینج ریٹ مینجمنٹ” کہا جاتا ہے۔چونکہ اس کے نقصان کے ساتھ ساتھ کچھ فوائد بھی ہوتے ہیں اس لیے ایسا کرنا پڑتا ہے
اگر یہ اپنے ہاتھ ہے تو پھر ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کیوں گھٹتا یا بڑھتا ہے
ہر سٹیٹ اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے کچھ ڈالر محفوظ رکھتی ہے اسی طرح اسٹیٹ بینک کے پاس بھی جو ڈالرز محفوظ ہوتے ہیں، ان کا استعمال روپے کو مستحکم رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اب اگر اسٹیٹ بینک چاہے کہ روپیہ مضبوط ہو، تو وہ مارکیٹ میں ڈالر بیچے گا (ڈالر کی فراہمی بڑھا دے گا)، جس سے ڈالر سستا اور روپیہ مہنگا ہو جائے گا۔ اگر وہ چاہے کہ روپیہ کمزور ہو (برآمدات کو فروغ دینے کے لیے)، تو وہ مارکیٹ سے ڈالر خریدے گا، ڈالر کی طلب بڑھے گی، اور روپیہ کمزور ہو جائے گا۔یہ عمل “foreign exchange intervention” کہلاتا ہے
مارکیٹ میں ڈالر کی طلب جتنی زیادہ ہوگی، اس کی قیمت بھی اتنی ہی بڑھے گی۔ جب پاکستان کو زیادہ درآمدات کرنی پڑتی ہیں (جیسے تیل، مشینری یا خوراک)، تو ڈالر کی طلب بڑھ جاتی ہے اور روپیہ کمزور ہو جاتا ہے۔ اگر برآمدات زیادہ ہوں اور ڈالر ملک میں آئے، تو روپیہ مضبوط ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جب پاکستان کی درآمدات، برآمدات سے زیادہ ہوں تو اسے ادائیگی کے لیے مزید ڈالر درکار ہوتے ہیں۔ یہ بھی روپے کی قدر کو کمزور کرتا ہے۔ اگر ہمیں پاکستانی روپیہ کی قدر بڑھانی ہے تو پھر ہمیں ایسی اشیاء تیار کرنی ہوں گی جنہیں ہم بیرونی منڈیوں میں جا کر بیچیں تاکہ ملک میں ڈالر آۓ اور پاکستانی روپے کی قدر بڑھے۔
اگر ملک میں سیاسی بے چینی، کرپشن یا دہشتگردی ہو، تو غیر ملکی سرمایہ کار دوسرے ملکوں کا رخ کرتے ہیں ادھر سرمایہ کاری نہیں کرتے اس طرح غیر ملکی سرمایہ کاری رک جاتی ہے، اور لوگ اپنے روپے کو ڈالر میں تبدیل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جس سے روپےکی قدر گھٹ جاتی ہے۔
زیادہ مہنگائی (Inflation) بھی روپے کی قوتِ خرید کو کم کرتی ہے، جس کی وجہ سے غیر ملکی کرنسیاں، خصوصاً ڈالر، زیادہ مضبوط محسوس ہوتی ہیں۔
اسی طرح اگر پاکستان میں شرحِ سود زیادہ ہو، تو غیر ملکی سرمایہ کار زیادہ منافع کے لیے سرمایہ لگاتے ہیں، جس سے روپے کی طلب بڑھتی ہے۔ اس کے برعکس کم سودی شرح روپیہ کمزور کر سکتی ہے۔
جب روپیہ کمزور ہوتا ہے تو برآمدات میں اضافہ ہو جاتا ہے ، پاکستانی مصنوعات عالمی منڈی میں سستی ہو جاتی ہیں، جس سے برآمدات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو موقع مل جاتا ہے، روپے کی گرتی قدر بعض اوقات بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے کشش پیدا کرتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ مہنگائی بھی بڑھ جاتی ہے۔ درآمد شدہ اشیاء جیسے تیل، ادویات، اور مشینری مہنگی ہو جاتی ہیں۔ قرضوں کا بار سر پر بڑھ جاتا ہے کیونکہ پاکستان کا بڑا حصہ بیرونی قرضوں پر ہے، اور ڈالر مہنگا ہونے سے قرضوں کی مالیت بھی بڑھ جاتی ہے۔عوام مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے روزمرہ کی اشیاء کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، جس سے عام آدمی متاثر ہوتا ہے۔
لیکن جب روپیہ مضبوط ہوتا ہے درآمدات سستی غیر ملکی اشیاء کم قیمت میں حاصل ہوتی ہیں، جیسے ایندھن، موبائل فونز، گاڑیاں وغیرہ۔ مہنگائی میں کمی ہو جاتی ہے عوامی سطح پر ریلیف ملتا ہے۔ تعلیم اور علاج کا خرچ کم ہو جاتا ہے بیرونِ ملک پڑھنے یا علاج کرانے والوں کے لیے بہت زیادہ مالی فائدہ ہوتا ہے۔لیکن فائدے کے ساتھ ساتھ برآمدات میں بھی کمی ہو جاتی ہے مہنگے پاکستانی مال کی وجہ سے عالمی منڈی میں مقابلہ مشکل ہوجاتا ہے۔ اور مقامی صنعت کا نقصان ہوتا ہے۔
اس پر قابو پانے کے لیے اسٹیٹ بینک مداخلت کرتا ہے،وقتاً فوقتاً ڈالر خرید کر یا بیچ کر ایک توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے، تاکہ اچانک اتار چڑھاؤ نہ ہو۔پاکستان میں اس وقت Managed Float Exchange Rate نظام رائج ہے، یعنی حکومت اور اسٹیٹ بینک کچھ حد تک روپے کی قدر پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بڑھ جائے، تو اسٹیٹ بینک ڈالر بیچ کر قیمت کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس کا بہترین اورممکنہ حل:
برآمدات بڑھانا
درآمدات میں کمی لانا
سیاسی و اقتصادی استحکام
غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا
اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کو برقرار رکھنا ہے
نتیجہ روپے کی قدر صرف ایک مالیاتی شرح نہیں، بلکہ یہ ایک پوری معیشت کی کارکردگی، اعتماد اور مستقبل کی تصویر ہے۔ عوام، حکومت اور کاروباری طبقے سب کو چاہیے کہ وہ معیشت کو مستحکم بنانے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ روپے کی قدر مستحکم رہے۔