شیزوفرینیا – ایک پیچیدہ ذہنی بیماری
کئی ذہنی مریضوں کو سوتے ہوئے کبھی ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی چیز نے ان کو جکڑ لیا ہے ۔جسم مکمل مفلوج نظر آتا ہے۔ ایسے ذہنی مریض کو ،تعویز یا علاج کس کی ضرورت ہے آپ کے خیال میں
ایسی صورتحال کئی بار ہو جاتی ہے یہ ایک سنجیدہ اور پیچیدہ ذہنی بیماری ہے جو انسان کے خیالات، جذبات، رویے اور حقیقت کو سمجھنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔ اس مرض میں مبتلا افراد اکثر ایسی آوازیں سنتے ہیں جو دوسروں کو سنائی نہیں دیتیں، غیر حقیقی مناظر دیکھتے ہیں، یا ایسے خیالات رکھتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ انہیں لگتا ہے کہ لوگ ان کے خلاف سازش کر رہے ہیں یا وہ کسی خاص طاقت کے حامل ہیں۔ بعض اوقات وہ دوسروں سے کٹ کر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں، جبکہ بعض افراد کے رویے اور بات چیت میں غیر معمولی بے ترتیبی پیدا ہو جاتی ہے۔
آغاز اور شدت
یہ بیماری اکثر نوجوانی یا جوانی کی ابتدائی عمر میں ظاہر ہوتی ہے، اور اگر بروقت علاج نہ ہو تو وقت کے ساتھ زیادہ شدید ہو سکتی ہے۔ شیزوفرینیا کا تعلق صرف ذہنی کیفیت سے نہیں بلکہ یہ دماغی کیمیاوی توازن، موروثی اثرات، ماحولیاتی حالات اور ذاتی تجربات کے مجموعے سے جنم لیتی ہے۔
دماغی تبدیلیاں اور کیمیائی عدم توازن
شیزوفرینیا کے مریضوں کے دماغ میں بعض کیمیکل جیسے ڈوپامین اور گلوٹامیٹ کا توازن بگڑ جاتا ہے، جس سے ان کی سوچنے، سمجھنے اور حقیقت کو پرکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ ساتھ ہی دماغ کے کچھ حصوں میں ساختی تبدیلیاں بھی دیکھنے میں آتی ہیں، جو یادداشت، منصوبہ بندی اور جذباتی ردعمل کو متاثر کرتی ہیں۔
اس بیماری میں وراثت کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ اگر کسی شخص کے قریبی رشتہ دار، جیسے والدین یا بہن بھائی، شیزوفرینیا کا شکار ہوں تو اس فرد میں بھی اس بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ جڑواں بچوں پر کی گئی تحقیق سے بھی یہ بات واضح ہوئی ہے کہ اگر ایک جڑواں بچہ متاثر ہو تو دوسرے میں اس کے ظاہر ہونے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ تاہم، صرف جینیاتی رجحان کافی نہیں ہوتا، دیگر ماحولیاتی یا نفسیاتی عوامل بھی اس میں کردار ادا کرتے ہیں۔
ماحولیاتی اور نفسیاتی اثرات
ایسے بچے جو بچپن میں جذباتی نظراندازی، گھریلو جھگڑوں، خوف یا غیر یقینی ماحول کا سامنا کرتے ہیں، ان میں ذہنی نشوونما کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، جو بعد ازاں شیزوفرینیا کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔ اسی طرح، زندگی کے کسی مرحلے پر شدید صدمہ جھیلنے والے افراد، خصوصاً وہ جو پہلے سے جینیاتی حساسیت رکھتے ہوں، بھی اس مرض کی زد میں آ سکتے ہیں۔
ذہنی مریض کو ،تعویز یا علاج کس کی ضرورت ہے؟
شیزوفرینیا کا علاج ممکن ہے، بشرطیکہ اس کی بروقت تشخیص ہو اور مریض کو تسلسل سے نگہداشت فراہم کی جائے۔ علاج میں ادویات، سائیکو تھراپی، خاندانی حمایت، اور روزمرہ زندگی میں نظم و ضبط قائم کرنے کی کوششیں شامل ہوتی ہیں۔ بہت سے مریض مناسب علاج کے ذریعے نہ صرف بہتر زندگی گزار سکتے ہیں بلکہ معاشرے میں فعال کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔
ہماری ذمہ داری
اس بیماری میں مبتلا افراد کو سہارے، توجہ اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں ان کے ساتھ ہمدردی سے پیش آ کر یہ یقین دلانا چاہیے کہ وہ تنہا نہیں ہیں، اور معاشرہ ان کی تکلیف کو سمجھنے اور بانٹنے کے لیے تیار ہے۔ ایک باشعور معاشرہ وہی ہے جو ہر فرد کو — خاص طور پر ذہنی بیماری کا شکار افراد کو — عزت، تحفظ اور قبولیت فراہم کرے۔