حسد سے کیسے بچا جاۓیہ کب اور کیوں ہوتا ہے

حسد سے کیسے بچا جاۓ 0

حسد کی وجوہات

حسد سے بچتے رہو کیونکہ حسد نیکیوں کو یوں کھا جاتا ہے ۔ جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔ (ابوداؤد،بیہقی) جب یہ نیکیوں کو کھا جاتا ہے تو پھر حسد سے کیسے بچا جاۓ ۔

دوستو بہت سے کمالات ایسے ہیں جن میں انسان کی کوششوں کا کوئی عمل دخل نہیں وہ محض قدرت کے انعامات ہوتے ہیں. کیونکہ انسان کی زندگی میں کچھ چیزیں اختیاری اور کچھ غیر اختیاری ہوتی ہیں. جو غیر اختیاری ہوتی ہیں جیسے کسی کا مرد ہونا یا کسی اعلی خاندان میں یا خاندان حکومت میں پیدا ہونا یا خوبصورت و حسین پیدا ہونا وغیرہ۔ ان کی تمنا اور خواہش کرنے سےاللہ نے بھی روک دیا، کیونکہ اب جس شخص کو یہ انعامات حاصل نہیں وہ اگر عمر بھر بھی اس کی کوشش کرے کہ مثلا عورت ہے تو وہ مرد ہو جائے یا خاندانی سید بن جائے اس کے نین نقش قد و قامت حسین ہو جائیں تو یہ اس کی طاقت اور بس میں نہیں، نہ کسی دوا اور علاج سے وہ ان چیزوں کو حاصل کر سکتا ہے اور نہ کسی تدبیرسے ممکن ہے۔ جب ایسا ہے تو پھر اس قسم کی خواہشات انسان میں کیوں پیدا ہوتی ہیں،  وجہ یہ ہے کہ انسان جب اپنے آپ کو دوسروں سے مال و دولت  عیش وعشرت، حسن و جمال، علم و فضل میں کم پاتا ہے تو عادتا اس کے دل میں ایک  خواہش پیدا ہوتی ہے، جس کا کم سے کم تقاضا یہ ہوتا ہے کہ میں بھی اس کے برابر یا زیادہ ہو جاؤں۔ اور جب دوسروں کی برابری پر قدرت اور طاقت نہیں ہوتی تو اب اس کے دل میں یہ خواہش جگہ کر جاتی ہے کہ دوسروں سے بھی یہ نعمت چھن جائے تاکہ وہ بھی اس کے برابر یا کم ہو جاۓ اسی کا نام حسد ہے۔ جو انسانی اخلاق میں انتہائی شرمناک اور مضر خصلت ہے اور دنیا کے بہت سے جھگڑوں اور فسادات قتل و غارت گری کا سبب ہے۔

آئیے قرآن سے پوچھتے ہیں کہ حسد سے کیسے بچا جاۓ

 قران کریم کی اس آیت  

(وَ لَا تَتَمَنَّوۡا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعۡضَکُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ لِلرِّجَالِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبُوۡا ؕ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبۡنَ ؕ وَ سۡئَلُوا اللّٰہَ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا ﴿﴾سورة النساء – Ayat No 32

اور اس چیز کی  آرزو  نہ کرو جس کے باعث اللہ تعالٰی نے تم میں سے بعض کو بعض پر بُزرگی دی ہے ۔ مردوں کا اس میں سے حصّہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لئے ان میں سے حصّہ ہے جو انہوں نے کمایا ، اور اللہ تعالٰی سے اس کا فضل مانگو ، یقیناً اللہ ہرچیز کا جاننے والا ہے ۔)

 نے اس فساد کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا۔ اللہ تعالی نے بتقاضہ حکمت و مصلحت جو کمالات و فضائل لوگوں میں تقسیم فرمائے ہیں کسی کو کوئی وصف دے دیا اور کسی کو کوئی۔ یا  کسی کو کسی سے کم یا زیادہ دے دیا تو اس میں ہر شخص کو اپنی قسمت پر راضی اور خوش رہنا چاہیے۔ دوسروں کے فضائل و کمالات کی تمنا میں نہ پڑے۔ اس کا نتیجہ اپنے لیے رنج و غم اور حسد کے گناہ عظیم کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔اور ایسی تمنا کرنے سے دوسروں سے بڑھ بھی نہیں سکتا ۔

بعض قرآنی آیات اور ارشادات نبوی میں مسابقت فی الخیرات یعنی نیک کاموں میں دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کا حکم دیا۔  بلکہ اپنے اعمال صالحہ کی فکر میں زیادہ پڑے ۔  دوسروں کے فضائل و کمالات کو دیکھ کر ان اعمال کے جدوجہد کی ترغیب دلائی جو اعمال و افعال انسان کے اختیار میں ہیں اور جسے وہ اپنی کوشش سے حاصل بھی کر سکتا ہے۔ مثلا علمی فضائل اور عملی اخلاق کے کمالات کسی کے دیکھ کر ان کے حاصل کرنے کی جدوجہد بہترین عمل ہے۔ جس طرح وہ اچھے اخلاق کا مالک ہے اسی طرح تو بھی بن جا۔ اس آیت کے اخر میں اللہ تعالی ارشاد فرما رہے ہیں کہ جو کوئی چیز مردوں نے کسب عمل کے ذریعے حاصل کی ہے ان کو اس کا حصہ ملے گا اور جو عورتوں نے کوشش کر کے عمل کے ذریعے حاصل کی ان کو اس کا حصہ ملے گا۔ اس میں یہ اشارہ موجود ہے کہ فضائل و کمالات کی کوشش بیکار نہیں بلکہ ہر مرد و عورت کو اس کی کوشش کا حصہ ضرور ملے گا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ کسی شخص کے علمی، عملی اور اخلاقی فضائل کو دیکھ کر ان کی تمنا اور پھر تمنا پوری کرنے کے لیے کوشش کرنا ایک بہترین عمل ہے۔  یہاں ایک مغالطہ بھی دور ہو گیا کہ جس میں بہت سے ناواقف مبتلا ہو جاتے ہیں بعض تو غیر اختیاری فضائل کی تمنا میں لگ کر اپنے عیش و آرام، سکون و اطمینان کو دنیا ہی میں برباد کر لیتے ہیں اور اگر نوبت حسد تک پہنچ گئی یعنی دوسرے کی نعمت کے زوال کی تمنا ہونے لگی تو آخرت بھی برباد ہوئی کیونکہ حسد کے گناہ عظیم کا ارتکاب ہوا۔

محنت اور اس کا پھل

اور بعض وہ لوگ بھی ہیں جو اپنی سستی کم ہمتی سے اختیاری فضائل حاصل کرنے کی بھی کوشش نہیں کرتے اور اگر کوئی کہے تو اپنے کم ہمتی اور بے عملی پر پردہ ڈالنے کے لیے قسمت اور تقدیر کے حوالے دینے لگتے ہیں۔ اس آیت نے ایک حکیمانہ اور عادلانہ ضابطہ بتلا دیا کہ جو کمالات و فضائل غیر اختیاری ہیں ان میں انسان کی کوشش موثر نہیں اور جو فضائل و کمالات اختیاری ہیں جو محنت اور عمل سے حاصل ہو سکتے ہیں ان کی تمنا مفید ہے بشرطیکہ تمنا کے ساتھ کوشش بھی ہو۔ اور اس ایت میں یہ بھی وعدہ کیا کہ عمل کرنے والے کی محنت ضائع نہ کی جائے گی۔ بلکہ ہر ایک کو بقدر محنت حصہ ملے گا چاہے مرد ہو یا عورت۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ چوری ڈاکہ اور دوسرے ناجائز طریقوں سے کسی کا مال لینا یا قتل و غارت گری کرنا ان تمام جرائم کا اصل منشا یہی ہوتا ہے کہ ایک انسان جب دوسرے انسان کو مال و دولت وغیرہ میں اپنے سے فائق اور بڑھا ہوا پاتا ہے تو پہلے اس کے دل میں اس کی برابری یا اس سے برتری کی خواہش و تمنا پیدا ہوتی ہے پھر یہ تمنا ہی اس کو ان تمام جرائم تک پہنچا دیتی ہے۔  قرآن نے ان تمام جرائم کے سرچشموں کو بند کر دیا۔ اس ایت کے آخر میں اللہ تعالی فرماتے ہیں وَ سۡئَلُوا اللّٰہَ مِنۡ فَضۡلِہٖ یعنی اب مطلب یہ بنے گا کہ جب تم کسی کو کسی کمال میں اپنے سے زائد دیکھو تو بجائے اس کے کہ اس خاص کمال میں اس کے برابر ہونے کی تمنا کرو، تمہیں کرنا یہ چاہیے کہ اللہ تعالی سے اس کے فضل و کرم کی درخواست کرو کیونکہ فضل خداوندی ہر شخص کے لیے جدا جدا صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے، کسی کے لیے مال و دولت فضل الہی ہوتا ہے، اگر وہ فقیر ہو جائے تو گناہ اور نافرمانی میں مبتلا ہو جائے، اور کسی کے لیے تنگی اور تنگدستی ہی میں فضل ہوتا ہے اگر وہ غنی اور مالدار ہو جائے تو ہزاروں گناہوں کا شکار ہو جائے۔ اسی طرح کسی کی عزت و جاہ کی صورت میں فضل خداوندی ہوتا ہے کسی کے لیے گمنامی اور کسم پرسی ہی اس کے فضل کا ظہور ہوتا ہے اوراگرانسان حقیقت حال پر نظر کرے تو معلوم ہو جائے ۔ کہ اس کو عزت و جاہ اگر ملتی تو بہت سے گناہوں میں مبتلا ہو جاتا۔ اس لیے اس آیت نے یہ بات واضح کی کہ جب اللہ سے مانگو تو کسی خاص وصف معین کو مانگنے کے بجائے اللہ کا فضل مانگو، تاکہ وہ اپنی حکمت کے مطابق تم پر اپنے فضل کا دروازہ کھول دے۔

 اب آیت کے آخر میں اللہ فرما رہے ہیں اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا

یعنی اللہ تعالی ہر چیز کو جاننے والا ہے اس میں اشارہ فرما دیا کہ اللہ تعالی کی تقسیم عین حکمت اور عین عدل و انصاف ہے جس کو جس حال میں پیدا کیا اور رکھا ہے وہی مقتضائے حکمت و عدل تھا مگر چونکہ انسان کو اپنے اعمال کے انجام کا پورا پتہ نہیں ہوتا اس کو اللہ تعالی ہی خوب جانتے ہیں کہ کس کو کس حال میں رکھنا اس کے لیے مفید ہے۔

اس تحریر سے حاصل ہونے والے اسباق

ہر چیز انسان کے اختیار میں نہیں ہے.

غیر اختیاری چیزوں کی تمنا فضول ہے.

اللہ کی تقسیم پر راضی رہے۔

اللہ سے دعائیں کرے۔بجائے حسد کے محنت کرے۔

حسد مختلف جرائم کا سبب بنتا ہے.

اختیاری چیزوں کی تمنا کے ساتھ ساتھ ان کے لیے محنت کرے. 

بغیر محنت کے کچھ نہیں ملتا. 

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں