بلوچستان کا ‘شاہی پہلوان’ کون؟

جب ڈاکو چلے گئے، تب پہلوان لنگوٹا کستا ہے: بلوچستان کا 'شاہی پہلوان' کون؟ 0

جب ڈاکو چلے گئے، تب پہلوان لنگوٹا کستا ہے: بلوچستان کا 'شاہی پہلوان' کون؟

کوئٹہ، پاکستان: ہمارے ملک میں ایک پرانی کہاوت مشہور ہے کہ “جب ڈاکو چلے جاتے ہیں، تب پہلوان لنگوٹا کستا ہے۔” یہ کہاوت آج کل بلوچستان کے حالات پر بالکل صادق آتی دکھائی دیتی ہے۔ حالیہ ماروا ڈگاری واقعے نے نہ صرف پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ ہماری انتظامیہ اور “شاہی پہلوانوں” کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان اٹھا دیے ہیں۔

کیا آپ کو وہ کہانی یاد ہے جب ایک شاہی پہلوان کو بڑے پروٹوکول کے ساتھ رکھا گیا تھا تاکہ وہ ملک و قوم کا نام روشن کرے اور مشکل گھڑی میں حفاظت کرے۔ ایک دن شہر میں ڈاکو آ گئے، سب کچھ لوٹ لیا اور چلتے بنے۔ ہمارے بہادر شاہی پہلوان صاحب کو جب اطلاع ملی، تو انہوں نے خوب تیاری کی، اپنا لنگوٹا کسا اور شہر کے چاروں طرف گھوم کر چلانے لگے، “بتاؤ چور کہاں ہیں؟ میں ابھی ان سے نمٹتا ہوں اور انہیں عبرت بناتا ہوں!” حالانکہ ڈاکو تو کب کا ہاتھ صاف کر کے جا چکے ہوتے ہیں۔

بدقسمتی سے، آج کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ کوئٹہ سے صرف 20-30 کلومیٹر کے فاصلے پر ماروا ڈگاری میں ایک خاتون کا دل دہلا دینے والا قتل ہوتا ہے۔ پہلے طلاق، پھر پسند کی شادی، اس کے بعد جرگہ، فیصلہ، قتل، اور پھر اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا اور ہماری “سوئی ہوئی انتظامیہ” دو ماہ تک گہری نیند سوئی رہی۔ جب سوشل میڈیا کا طوفان اٹھا، تب جا کر ان کی آنکھ کھلی اور وہی گھسی پٹی بھاگ دوڑ شروع ہو گئی: “بتائیں وہ کہاں ہیں؟”

سینیٹر عرفان صدیقی نے بالکل درست نشاندہی کی ہے کہ بلوچستان میں یہ کیا نظام چل رہا ہے جہاں جرگے عدالتیں لگاتے ہیں، گواہیاں ہوتی ہیں، اور پھر قتل کر دیا جاتا ہے؟ کیا وہاں ریاست کی بجائے جرگے فیصلے کرتے ہیں؟ یہ واقعہ صرف بلوچستان کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کی عزت پر حملہ ہے۔ یہ نظام صرف گولی لڑکی کے سر میں نہیں مارتا، بلکہ پاکستان کے سینے پر مارتا ہے۔

یہ اجتماعی جرم ہے!

ہماری انتظامیہ کا کام یہ ہے کہ وہ ملک و قوم کی حفاظت کرے اور کوئی بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لے سکے۔ لیکن جب دو مہینے تک ایک سنگین جرم کا علم ہی نہ ہو، اور وہ بھی تب جب سوشل میڈیا اسے منظر عام پر لائے، تو سوال اٹھتا ہے کہ یہ کیسی حکمرانی ہے؟ کیا یہ بھی اسی شاہی پہلوان کی کہانی کا تسلسل ہے جو ڈاکوؤں کے جانے کے بعد لنگوٹا کسنا شروع کرتا ہے؟

کبھی وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کا بیان آتا ہے اور کبھی عدالت کا سوموٹو نوٹس۔ یہ سب رسمی کارروائیاں تب تک بے معنی ہیں جب تک زمینی حقائق تبدیل نہ ہوں۔ جب تک جرگہ سسٹم جیسے غیر قانونی ڈھانچے فعال رہیں گے اور ریاست ان پر قابو پانے میں ناکام رہے گی، تب تک ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ یہ دو انسانوں کے قاتل نہیں، بلکہ پاکستان کی عزت کے قاتل ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ انتظامیہ اور حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو اور وہ صرف سوشل میڈیا کی زد میں آنے پر حرکت میں نہ آئیں، بلکہ فعال ہو کر ایسے جرائم کو سر اٹھانے سے پہلے ہی کچل دیں۔ ورنہ ہمارا یہ “شاہی پہلوان” یونہی لنگوٹا کستا رہے گا اور ڈاکو اپنا کام کر کے نکلتے رہیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں